Tuesday, 1 September 2015
Zara Kocha Aur Qurbat Zer-e-Damaa'n Larkarate Hain
ذرا کُچھ اور قُربت زیرِ داماں لڑ کھڑاتے ہیں
مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں
تخیّل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
تصّور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں
قرارِ دین و دُنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہے
سہارے دیکھ کر زُلفِ پریشاں لڑکھڑاتے ہیں
تیری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
بنامِ ہوش مدہوشی کے عُنواں لڑکھڑاتے ہیں
سُنو! اے عِشق میں توقیرِ ہستی ڈھونڈنے والو
یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں
تمہارا نام لیتا ہُوں فضائیں رقص کرتی ہیں
تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں
کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
کہ جن کی جنبشِ اَبرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں
یقینا حشر کی تقریب کے لمحات آپہنچے
قدمِ ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں
(ساغر صدیقی)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 Responses to “Zara Kocha Aur Qurbat Zer-e-Damaa'n Larkarate Hain”
Post a Comment